icon

انفرا ضامن پاکستان کے زیراہتمام کیپٹل مارکیٹس کے ذریعے گرین فنانسنگ کی اہمیت پر خصوصی سیمینار کا انعقاد

اسلام آباد، 30 اپریل، 2025۔ انفرا ضامن پاکستان نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، برطانوی ہائی کمیشن اسلام آباد اور پرائیویٹ انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ گروپ (پی آئی ڈی جی) کے اشتراک سے ”گرین فنانسنگ بذریعہ ڈیٹ کیپٹل مارکیٹس” کے عنوان سے بڑے سیمینار کا انعقاد کیا۔ اس تقریب میں ملکی و غیر ملکی ماہرین، مالیاتی اداروں، اور ریگولیٹری شعبے سے وابستہ سینئر افراد نے شرکت کی اور پاکستان میں پائیدار ترقی کے لیے ڈیٹ کیپیٹل مارکیٹس کو فعال بنانے میں کریڈٹ بڑھانے کے اہم کردار پر اظہار خیال کیا۔

تقریب کے دوران ایس ای سی پی کے چیئرمین عاکف سعید، برطانوی ہائی کمیشن اسلام آباد کی ڈیولپمنٹ ڈائریکٹر جو موئر، انفرا ضامن پاکستان کی سی ای او ماہین رحمان، انفرا ضامن پاکستان کے بورڈ چیئرمین بوہاک خو، پی آئی ڈی جی میں اوریجنیشن لیڈ آف نیچر فِلپ اسکنر، اور کارانداز پاکستان کے سی ای او وقاص الحسن نے اہم موضوعات پر تقاریر اور پینل ڈسکشنز میں اپنی رائے پیش کی۔ مقررین نے ملک میں پائیدار انفراسٹرکچر کو فروغ دینے کے لئے مالیاتی خدمات اور ریگولیٹری فریم ورک کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

سیمینار کے ایک اہم سیشن میں ”روپیہ بانڈز سے پاکستان کی بحالی کیسے ممکن ہے؟” کے عنوان سے دلچسپ گفتگو ہوئی جس میں ماڈریشن کے فرائض ماہین رحمان نے سرانجام دیئے جبکہ بوہاک خو نے اظہار خیال کیا۔ اس پروگرام کے دوران مقامی بانڈ مارکیٹ کو وسعت دینے، غیر ملکی قرضوں پر انحصار کم کرنے، اور مقامی کرنسی میں فنانسنگ کے ذریعے مالی استحکام پیدا کرنے کے موضوعات زیر بحث آئے۔

سیمینار میں ”گرین فنانسنگ ایکوسسٹم کی تشکیل: کریڈٹ میں اضافے اور مالیاتی انسٹرومنٹس کے انضمام ‘ ‘پربھی پینل ڈسکشن کا اہتمام کیا گیا۔ اس نشست میں انفرا ضامن بورڈ کی ڈائریکٹر کلاڈین لِم، ایس ای سی پی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر خالدہ حبیب، سعودی پاک انڈسٹریل اینڈ ایگریکلچرل انویسٹمنٹ کمپنی کے جی ایم اور سی ای او رضوان احمد، اور المیزان انویسٹمنٹ مینجمنٹ لمیٹڈ کے سی ایف اے اور سی ای او امتیاز غدر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ گرین انفراسٹرکچر میں طویل المدتی سرمایہ کاری کو فعال اور پائیدار مالیاتی مصنوعات میں کریڈٹ گارنٹیز کی شمولیت کو قابل عمل بنایا جا سکتا ہے۔ پینل مقررین نے پاکستان کی معیشت میں مالیاتی جدت کو زیادہ ماحول دوست اور مزید مستحکم بنانے کے سفر میں ایک اہم عنصر قرار دیا۔

عاکف سعید نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایس ای سی پی مالیاتی مصنوعات میں جدت کے فروغ کے لیے ایک سازگار اور ریگولیٹری کا فعال ماحول بنانے کے لیے پُرعزم ہے۔ انہوں نے کہا، ”ایس ای سی پی شفاف اور مؤثر کیپیٹل مارکیٹ کے قیام کے لیے کوشاں ہے، اور اسی مقصد کے تحت بانڈ اجرا کے عمل کو سادہ اور تیز تر بنانے پر کام کیا جارہا ہے تاکہ وقت اور لاگت میں کمی لائی جا سکے۔ اسکے ساتھ ساتھ، نجی شعبے کی بھی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے کہ وہ شفافیت بڑھانے کے لیے S1 اور S2 ڈسکلوزر اسٹینڈرڈز اختیار کریں، جبکہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو مستحکم کرنے اور سرمایہ کاری کے دائرہ کار میں وسعت لانے کے لیے کریڈٹ بڑھانے اور بلینڈڈ فنانس کی اہمیت پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔”

برطانوی ہائی کمیشن کی ڈویلپمنٹ ڈائریکٹر جو موئر نے کہا، ”پاکستان کے پاس پائیدار ترقی میں قیادت کا منفرد موقع موجود ہے، جسے وہ عالمی سطح پر گرین فنانس کے رحجانات اور جدید مالیاتی ٹولز استعمال کرتے ہوئے حاصل کر سکتا ہے۔ برطانیہ تکنیکی مہارت اور مالی شراکت داری کے ذریعے پاکستان کی معاونت کر رہا ہے تاکہ ملک کے لیے ایک زیادہ سرسبز، مضبوط اور پائیدار مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکے۔”

اس موقع پربوہاک خو نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا، ”مقامی کیپیٹل مارکیٹس کے ذریعے گرین فنانسنگ کی ترقی پاکستان کے لیے ایک مؤثر اور مثبت پیش رفت ہے۔ بانڈز انسٹرومنٹس پر کریڈٹ گارنٹیز فراہم کرنے کے حوالے سے انفرا ضامن کی کاوشیں پاکستان میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے اور موسمیاتی تقاضوں سے ہم آہنگ بڑے انفراسٹرکچر کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ایس ای سی پی کی قیادت کی جانب سے ان کاوشوں کے لیے معاون ریگولیٹری فریم ورک مہیا کرنا قابلِ تعریف اور حوصلہ افزا ہے۔”

انفرا ضامن کی سی ای او ماہین رحمان نے ادارے کے حالیہ اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ انکی جانب سے جنوبی ایشیا میں اب تک کا پہلا ”جینڈر بانڈ” متعارف کرایا گیا ہے، جس کے ذریعے تقریباً 30 ہزار خواتین کو مائیکرو انفراسٹرکچر منصوبوں کے ذریعے بااختیار بنایا گیا ہے۔ انہوں نے یونٹی فوڈزاور انفرا ضامن کے 2 ارب روپے مالیت کے ”ایگری انفراسٹرکچر سکوک” کا بھی ذکر کیا، جو شریعت کے عین مطابق مالیاتی انسٹرومنٹ ہے اور جس کا مقصد زرعی سہولیات کو جدید بنانا اور قابلِ تجدید توانائی کو فروغ دینا ہے۔ یہ منصوبے اس بات کی واضح مثال ہیں کہ انفرا ضامن کریڈٹ گارنٹیز کے ذریعے ایسے شعبوں میں نجی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کررہا ہے جو عام طور پر نظر اندازکر دیے جاتے تھے۔

کارانداز پاکستان کے سی ای او وقاص الحسن نے گرین فنانسنگ کے شعبے کو مستحکم بنانے کیلئے ادارے کے کردار پر روشنی ڈالی اور ڈیٹ کیپٹل مارکیٹ کو فعال بنانے میں اس کی کاوشوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا، ”گرین فنانس اب کوئی آپشن نہیں رہا بلکہ یہ ایک اہم ضرورت ہے۔ پائیدار معاشی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ سرمایہ کاری کو ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نبردآزما پائیدار منصوبوں کی جانب منتقل کیا جائے۔ انفرا ضامن ریگولیٹرز اور مالیاتی شعبے کے اشتراک سے پاکستان کی ڈیٹ کیپٹل مارکیٹ کی مکمل صلاحیت کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ ہم سب مل کر گرین انفراسٹرکچر اور مالیاتی جدت کو فروغ دینے کے حوالے سے نجی شعبے کی شمولیت کو تیز تر کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں، تاکہ پاکستان کا مستقبل زیادہ مستحکم، جامع اور پائیدار ہو۔”

پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے سی ای او، فرخ سبزواری نے کیپٹل مارکیٹ کو مزید مستحکم بنانے میں پی ایس ایکس کے کردار سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہا، ”دنیا میں جس طرح ماحولیاتی تبدیلی اور عدم مساوات جیسے چیلنجز بڑھ رہے ہیں، اسی طرح ای ایس جی اصول (ماحولیاتی، سماجی اور گورننس) عالمی کاروباری اداروں کے لیے ناگزیر ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ماحول دوست پائیدار طرز عمل کی قبولیت نہ صرف خطرات میں کمی لاتی ہے اور سرمایہ کاروں کی بڑھتی ہوئی توقعات پر پوری اترتی ہے، بلکہ طویل مدتی کاروباری کامیابی کا سبب بھی بنتی ہے۔ پوری دنیا میں پائیداری سے منسلک بانڈز کے اجرا میں تیزی آئی ہے، جو 2023-2024 میں 5 فیصد اضافے کے ساتھ 1.1 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پائیدار فریم ورکس کو اختیار کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور شفافیت کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ پی ایس ایکس گرین فنانسنگ کے فروغ کے لیے پُرعزم ہے، تاکہ پائیدار انفراسٹرکچر کی ترقی کے ذریعے پاکستان کی مستحکم اور جامع معیشت مزید پھل پھول سکے۔”

پی آئی ڈی جی کے فلپ اسکِنر نے پائیدار فناسنگ کے لیے نجی کیپٹل کو فعال کرنے میں ادارے کے کردار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے مختلف کیس اسٹڈیز پیش کیں، جن میں خاص طور پر ”ایکورن” کا ذکر کیا جو مشرقی افریقہ کا پہلا گرین بانڈ منصوبہ تھا جس نے نیروبی میں طلباء کو ماحول دوست، محفوظ اور مناسب لاگت میں رہائش کے لیے فنانسنگ فراہم کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا، ”پاکستان کی جانب سے ماحولیاتی سرمایہ کاری کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کیپٹل مارکیٹس کے ذریعے گرین فنانسنگ کی حوصلہ افزائی ایک اہم ستون ہے۔ سرمایہ کاریوں کو ‘گرین’ کے طور پر سرٹیفکیشن کا اجراء مارکیٹ میں موسمیاتی خطرات کو سمجھنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی مارکیٹ میں دلچسپی کو بڑھاتا ہے۔”

سیمینار کا اختتام اس اتفاقِ رائے کے ساتھ ہوا کہ پاکستان میں گرین فنانسنگ کے نظام کو مزید وسعت دینے کی فوری ضرورت ہے، جس کے لئے ڈیٹ کیپیٹل مارکیٹس کا مؤثر طریقے سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ پائیدار انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے طویل المدتی سرمایہ کاری کو ممکن بنانے کی ضرورت ہے جبکہ پبلک و پرائیویٹ شعبوں کے درمیان مسلسل اشتراک سے جدید مالیاتی انسٹرومنٹس کو متعارف کرانے اور کریڈٹ بڑھانے کے نظام کو مضبوط بنانا بھی نہایت ضروری ہے.